جتنے دشمن ہماری جان کے ہیں
ان میں آدھے تو خاندان کے ہیں
آدمی اپنی ہی اڑان کے ہیں
ہم زمیں کے نہ آسمان کے ہیں
سنسناہٹ سے ایسا لگتا ہے
تیر یہ بھی اسی کمان کے ہیں
سب ہواؤں کا اک قبیلہ ہے
سب چراغ ایک خاندان کے ہیں
ملنے دیں گے نہ چاند سے مجھ کو
یہ ستارے جو درمیان کے ہیں
جانے کب جا پڑیں نشیبوں میں
ہم تو پتھر کسی ڈھلان کے ہیں
اُن کو جلدی شفا نہیں ملتی
وُہ جو زخمی کسی زبان کے ہیں
حضرت عشق نے جو کھولی تھی
درد میرے بھی اُس دکان کے ہیں
پوجتا ہے جنھیں مرا تیشہ
بُت ابھی وُہ کسی چٹان کے ہیں
ہم بھی پامالِ سبزۂ خوش خط
تیری زلفوں کے سائبان کے ہیں
علی ارمان میری غزلوں میں
بین خاموشی کی رسان کے ہیں