195

نہیں ہے عقدہ ءِ افسردگی کا حل مرے دوست

ایک غزل

نہ ڈال موت کی خاموشی میں خلل مرے دوست
جنازہ ہو کے جنازے کے ساتھ چل مرے دوست

ہوا کے ہاتھ مجھے نیک خواہشات نہ بھیج
ذرا سی دیر مرے ساتھ آ کے جل مرے دوست

میں مسکراتے ہوئے پھول سے بھی پوچھ چکا
نہیں ہے عقدہ ءِ افسردگی کا حل مرے دوست

یہ میرے بھائی ابھی تک تو میرے بازو ہیں
مگر وہ بازو کہ جو ہو چکے ہیں شل مرے دوست

نکاح کرچکا کب کا میں اس عفیفہ سے
سو پردہ کرتی نہیں مجھ سے اب اجل مرے دوست

وہ ایک پل جہاں صدیوں کے پاؤں ٹوٹ گئے
بدل سکے تو بدل دے وُہ ایک پل مرے دوست

شفق بکھیرتا پھرتا ہے سب سمندروں پر
کبھی تو آ مری آغوش میں بھی ڈھل مرے دوست

میں تیری راہ کے کانٹے چنوں گا زندگی بھر
بس اتنی عرض ہے تو میرے پیچھے چل میرے دوست

جو زہر بزمِ رقیباں میں کھا کے آیا ہے
وُہ زہرناب مرے سامنے اُگل مرے دوست

کسی نے کان بھرے ہیں ترے کچھ آنکھیں کھول
میں تجھ پہ وا ر نہیں کر رہا سنبھل مرے دوست

ہوائے باغ کو جا کر گلے لگا جا جا
اداس پھولوں کو بھی اپنا عطر مل مرے دوست

اگر تو مجھ کو بلائے میں آ تو جاؤں گا
مگر اب آ نہیں پاؤں گا سر کے بل مرے دوست

نکل نہ جائے ترے پاؤں سے زمین کہیں
ستاروں کے لیے اتنا بھی مت اچھل مرے دوست

یہ ہاؤہو مجھے ہوہا میں ڈھلتی لگتی ہے
مرا تو مشورہ یہ ہے کہ اب نکل مرے دوست

یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے تیرے بغیر
یہ فلم میں نے نہیں دیکھنی بدل مرے دوست

ترا ملال ہوں میں اور مری خوشی تو ہے
کہ تیرا برج ہے زہرہ مرا زحل مرے دوست

مرے سخن ہیں تری ہی شنید کے دم سے
نہ تُو سنے تو میں اک حرفِ بے محل مرے دوست

نہیں مرا کوئی استاد اس زمانے میں
مجھے غزل نے سکھائی ہے خود غزل مرے دوست

وہ اس لیے کہ گزرتا نہیں ہے وقت اس پر
بنائے عشق میں آتا نہیں خلل مرے دوست

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں