غزل
ہیں محو جشن سرِ شہر قاتلینِ چراغ
گھروں میں دبکے ہوئے ہیں لواحقینِ چراغ
نبردِ باد رہا ہے یہ آخری دم تک
چڑھی ہوئی ہے جو بجھ کر بھی آستینِ چراغ
رکی نہیں ہے وُہ لو صرف میری آنکھوں تک
مرے لہومیں اُتر آیا ہے یقینِ چراغ
جنازے کی صف اوّل میں اب کھڑے ہوئے ہیں
تمام عمر رہے ہیں جو نکتہ چینِ چراغ
یہ لگ رہا ہے کہ اکتا گیا ہے طاق سے دل
کسی ہوئی فرسِ باد پر ہے زینِ چراغ
خدا کاشکرمیاں روشنی پرست ہوں میں
ہے میرا مسلک ومذہب فروغِ دین چراغ