گوندھنے سے پہلے مٹی کو چھانتا ہوں
کوزے کیسے بنتے ہیں میں جانتا ہوں
چِر جانا ہے اک دن چلتے آرے پر
عشق میں خود کو ایک شجر گردانتا ہوں
ذہن کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوتی
میں جس بات کو اپنے دل میں ٹھانتا ہوں
چُبھنے لگتی ہے جب اپنی دُھوپ مجھے
سر پر یادِ یار کی چادر تانتا ہوں
تم نے پڑھا ہے جس کا نام کتابوں میں
میں اس دشت کو ذاتی طور پہ جانتا ہوں
میرا شناسا اور وہاں اب کوئی نہیں
گاؤں میں بس اک برگد کو پہچانتا ہوں
میرا گمشدہ دل بھی شاید مل جائے*
اس کی گلی میں بیٹھا مٹی چھانتا ہوں
رنگ ارمانؔ ملا کرعشق وحیرت کا
اپنے ہر اک مصرعے کو ارمانتا ہوں
*استفادہ از میر تقی میر