سب سے بڑا جہاں میں خود آزار میں ہوں میں
ہے اور کون اپنا گرفتار ،میں ہوں، میں
برسوں کے بعد لوٹ کے آیا ہوں باغ میں
اے پھول آنکھ کھول، مرے یار !میں ہوں ،میں
انیسویں صدی میں تھا غالب کو یہ مرض
اور اب حریصِ لذتِ آزار میں ہوں میں
چلتی ہے جس کے دم سے تری سانس آج تک
اے داستان ِعشق وہ کردار میں ہوں میں
دیکھے کوئی تو کچھ بھی نہیں ہے مرا وجود
سمجھے کوئی تو نکتہءِ پرکار میں ہوں میں
جاؤں کہاں میں آئنہ خانے سے بھاگ کر
ہرسمت اپنے آپ سے دوچار میں ہوں میں
ہے خود فریبیوں سے یہ کشتی بھری ہوئی
ہر آدمی یہ کہتا ہے پتوارمیں ہوں میں
میرے اور اس کے بیچ میں حائل کوئی نہیں
افسوس اپنی راہ کی دیوار میں ہوں میں
جب تک ہوں میں مریض، تری زندگی ہے دوست
اے عشق تیرا آخری بیمار میں ہوں میں
منصور کے بھی ساتھ تھا سولی پہ میرا جسم
سرمد کے روپ میں بھی سرِ دار میں ہوں میں
درھم دھڑکتے ہیں مرے خوں کی کشید سے
اے شہر تیری رونقِ بازار میں ہوں میں
ٹوٹا نہیں ہےسلسلہ میری نمود کا
روز ازل سے شوقِ لگاتار میں ہوں میں
سارے دیے بجھا کے بھی یہ مطمئن نہیں
اس رات کے اندھیرے کو درکار میں ہوں میں
الحمد جس کا کوزہءِ کن ہے یہ کائنات
اس کوزہ گر کے ہاتھ کا شہکار میں ہوں میں
آمیزہءِطلسم ہے ارمانؔ میرا جسم
امید و خواب و خوف کا انبار میں ہوں میں
