تازہ غزل
علی ارمانؔ
پرنہیں گیلے ہونے دیتی یہ مخلوقِ آبی
ایسے رہو دنیا میں جیسے دریا میں مرغابی
ہردل کا دروازہ کھولے جو بھی ہنس کربولے
میٹھا بول محبت والا ہر تالے کی چابی
تو اور میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں اک کشتی میں
تیری جبلّت ساحلی میری طبیعت ہے گردابی
رقص کی رو میں کھُلتے ہیں محبوب کے گُپت اشارے
عشق میں ہرگز کام نہیں آتا کُچھ علم کتابی
ہم نے دل کی انگلی پکڑی تونے عقل کادامن
ہم راضی بہ رضا ان پڑھ اور تو ناراض نصابی
تیرا سنگِ سماعت نرم کریں کیا میری غزلیں
پانی کے بس میں نہیں ہوتی پتھر کی سیرابی
میری کوہستانی لے میں سوز آیا صحرا سے
ماہی میرا مدنی اور میں پوٹھوہاری پنجابی
وہ صحرا ہے میرے لیے جنت کے باغ سے بڑھ کر
جس نے اُنؐ کو دیکھا ہے جو رہا ہے اُن کا صحابی
موت کی اندھی بے تہہ کھائی بھاگ نہیں جائے گی
اے ڈھلوان پہ ٹھہرے پتھرکیا ہے تجھ کو شتابی
دریا میں بہنے لگتے ہیں کٹ کر مرے کنارے
مٹی سے نہیں دیکھی جاتی پانی کی بیتابی
آ جاتی ہے میرے مصرعوں کے منہ پر بھی رونق
گاہے گاہے جھلک اٹھتے ہیں اُس کے گال گلابی
سیدھا سادھا مشاہدہ ہے اک بےتشبیہہ وعلامت
گورے پاؤں میں اچھی لگتی ہے کالی گرگابی
آج کی نسل کا سب سے بڑا المیہ بتاؤں تجھ کو
اس کا دل ہے چڑیا کا اور اس کی آنکھ عقابی