271

دھوپ نے بوسہ دیا تھا مری پیشانی کو

غزل
علی ارمانؔ
اپنی آنکھوں میں دکھا کر کسی طغیانی کو
ٹھنڈا کرتا ہوں رعونت سے بھرے پانی کو

 

سوچتے سوچتے میں ہو گیا پتھر اک دن
کون چھڑوائے گا آئینے سے حیرانی کو

 

مجھے معلوم ہے اوقات نہیں صحرا کی
جتنا ویران میں رکھ سکتا ہوں ویرانی کو

 

پہلے طوفان اٹھاؤں گا ترے دریا میں
اور پھر شانت کروں گا میں ترے پانی کو

 

ابھی مصروف ہوں اک خطہءِ خُود یافتی میں
لُطف لینے دو ابھی میری گراں جانی کو

 

ریت صحرا کی نہیں بیٹھنے دی زندگی بھر
سَیل اُٹھ کر نہ ملے کیوں ترے سیلانی کو

 

تمھیں خوش رہنے کا نسخہ میں بتا دیتا ہوں
اتنی مشکل سے نہ بانٹا کرو آسانی کو

 

دستِ یزداں کی مہک آتی ہے اس مٹی سے
پیار سے دیکھا کرو صورتِ انسانی کو

 

سخت بارش میں کسی چھت پہ کہیں آخرِشب
دھوپ نے بوسہ دیا تھا مری پیشانی کو

 

مجھ کو ہر چیز میسر ہے مرے حجرے میں
غور سے دیکھو مری بے سروسامانی کو

 

اتنا صیقل کیا ارمان سخن کو میں نے
میر و غالب بھی چھپاتے پھرے حیرانی کو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں