249

ٹوکری کترنوں سے بھر گئی ہے

غزل

دل سے وہ یاد کب اتر گئی ہے
موج تصویر میں ٹھہر گئی ہے

کس طرح جاؤں صبح سے ملنے
آخری ٹرین بھی گزر گئی ہے

آج نکلا ہے شہر میں سورج
یہ بتانے کہ دھوپ مر گئی ہے

ہم سے ملبوسِ زندگی نہ سِلا
ٹوکری کترنوں سے بھر گئی ہے

زندگی میرے ساتھ تھی لیکن
پچھلے اسٹاپ پر اتر گئی ہے

ایک موجِ خیال خوش بدناں
میری رگ رگ میں ریت بھر گئی ہے

اتنا تنہا ہوں میں کہ اب مجھ سے
میری تنہائی بھی مکر گئی ہے

علی ارمانؔ میرے گریے پر
پتھروں کی بھی آنکھ بھر گئی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں