غزل
دل سے وہ یاد کب اتر گئی ہے
موج تصویر میں ٹھہر گئی ہے
کس طرح جاؤں صبح سے ملنے
آخری ٹرین بھی گزر گئی ہے
آج نکلا ہے شہر میں سورج
یہ بتانے کہ دھوپ مر گئی ہے
ہم سے ملبوسِ زندگی نہ سِلا
ٹوکری کترنوں سے بھر گئی ہے
زندگی میرے ساتھ تھی لیکن
پچھلے اسٹاپ پر اتر گئی ہے
ایک موجِ خیال خوش بدناں
میری رگ رگ میں ریت بھر گئی ہے
اتنا تنہا ہوں میں کہ اب مجھ سے
میری تنہائی بھی مکر گئی ہے
علی ارمانؔ میرے گریے پر
پتھروں کی بھی آنکھ بھر گئی ہے