180

 علی ارمان کے زیر طبع مجموعے ” عشق بادشاہ” پر جنابِ اختر عثمان کی رائے

غزل ہماری تہذیبی صنفِ سخن ہے ۔ بظاہر یہ جتنی آسان نظر آتی ہے اسی قدر سخت جان بھی ہے ۔ بیسویں صدی میں اس صنف پر مختلف قسم کے اعتراضات ہوتے رہے ہیں لیکن غزل نے ہمیشہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ میرے نزدیک ان اعتراضات کی کوئ وقعت نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ صنف بجائے خود کچھ نہیں ہوتی، بڑا فنکار ہی اسے توقیر عطا کرتا ہے

علی ارمان بیسویں صدی کی آخری دہائ میں ابھرنے والے جدید غزل گو ہیں ۔ ان کی غزل ان کے سماجی تفاعل کا بہترین نمونہ ہے ۔ ان کی اکثر غزلیں ہمارے تہزیبی رویوں سے چھن کر وجود میں آئ ہیں ۔ انہیں مصرع بافی میں قدرت حاصل ہے سو ان کی نئ نویلی ردیفیں اور قافیے ہماری جدید غزل کی پہچان ہیں ۔ علی ارمان اس لئے بھی جدید غزل کے اہم شاعر ہیں کہ انہوں نے غزل کو تہذیبی علائق سے ہٹ کر نہیں کہا بلکہ اسے کلاسیکی غزل کے عظیم سرمائے سے مربوط کر دیا ہے ۔

اس صنف میں اپنا اسلوب بنانا انتہائ مشکل کام ہے جو علی ارمان نے بہ تمام و کمال کر دکھایا ہے ۔ جدید غزل گویوں نے معاصر حسیت کو سامنے رکھ کر اور رچا بسا کر غزل کہی ہے جن میں علی ارمان کم و بیش سر فہرست ہیں ۔ ان کی اختراعی زمینیں اور مصرعے پر ان کی مہارت انہیں پیش رو غزل گویوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے لہٰذا ان کی غزل پڑھتے ہوئے ہمیں یک گونہ سرشاری کا احساس ہوتا ہے ۔ انہوں نے رومان پر ہمارے سماجی رویوں کو قربان نہیں کیا بلکہ روزگار اور عشق کو باہم آمیخت کر کے تخلیقی فنکاری کا ثبوت دیا ہے ۔ میں ان کی درازی عمر کے لئے دعا گو ہوں ۔

اختر عثمان

8 دسمبر 2019

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں