میں علی ارمان کو زمانوں سے جانتا ہوں، کئی سال پہلے سے، جب میں اسکول کا طالب علم تھا۔ انگلش لینگویج سینٹر میں ایک دن علی بابا تاج آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ میں نے کتاب مانگی۔ سخن تصویر تک پہنچا۔ کتاب کا نام تھا۔ کتاب کے بیک فلیپ پر ایک شعر درج تھا: میں اس کو دیکھ کر چپ ہوگیا ہوں
سخن تصویر تک پہنچا دیا ہے
شعر دل کو لگا۔ کتاب پڑھنے کےلیے لی۔ پڑھی تو بہت پسند آئی۔ شاعری کا آغاز تھا، الفاظ اور تراکیب سے زیادہ آشنائی نہیں تھی۔ علی ارمان کے بعض شعر بھی ثقیل اور سر کے اوپر سے گزرتے ہوئے لگے، لیکن مجموعی تاثر انبساط کا تھا اور یہ کہ کتاب بہت اچھی لگی۔ نوجوانی کا حافظہ تھا، کئی اشعار ذہن پر نقش ہوکر رہ گئے اور آج بھی بالکل ویسے ہی تازہ ہیں:
شام در شام ایک ہی غم ہے
زندگی ساتویں محرم ہے
اب یہاں پیڑ کون اگنے دے
آدمی کے لیے زمیں کم ہے
اور کئی دوسرے اشعار۔ ایران آنے اور فیس بک سے منسلک ہونے کے ایک دو سال بعد علی ارمان کو فیس بک پر ڈھونڈ ہی لیا۔ ان کی نئی غزلیں پڑھیں تو ہر غزل کا الگ لطف آیا۔ تب تک جتنی غزلیں فیس بک پر پوسٹ کی تھیں،سب پڑھیں۔ پھر سلام دعا ہوئی۔ چیٹینگ ہوئی۔ دوستانہ ماحول میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ معلوم ہوا بہت ملنسار اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ میں علی ارمان کے بارے میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگر میرا کوئی بڑا بھائی ہوتا تو اس کے لیے میرے دل میں جتنی محبت اور عزت ہوتی، اتنی علی ارمان کے لیے ہے۔
تحریر۔ احمد شہریار ۔ ایران