195

ہر روز میری شام سے منہ ماری ہوتی ہے

کرتا ہوں میں نہ مجھ سے ریاکاری ہوتی ہے
رندانِ باصفا میں یہ بیماری ہوتی ہے

صحرا کے مدرسے میں فقط قیس ہی نہیں
میرے بھی دستخط سے سند جاری ہوتی ہے

ہوتا نہیں خراب ہراک دشت میں وُہ شخص
جس کو تلاشِ آہوئے تاتاری ہوتی ہے

سورج نکلتا ہے مری ہرایک پور میں
جب شامِ زلفِ سیم تناں طاری ہوتی ہے

تُو اشکباری دیکھنے آیا ہے بیٹھ جا
اور دیکھ کیسے آنکھ سے خوں باری ہوتی ہے

شامِ سبو کے سامنے کھُلتا ہے میرا پول
دن بھر تو قہقہوں کی اداکاری ہوتی ہے

یہ بوجھ لو کا ہے کہ اندھیرے کا، جو بھی ہو
جلتے دیوں پہ رات بہت بھاری ہوتی ہے

تفصیل اس لڑائی کی مجھ سے نہ پوچھیے
ہر روز میری شام سے منہ ماری ہوتی ہے

ارمانؔ بیدلی کا نہیں ہے کوئی علاج
بیزاری سے بھی اب مجھے بیزاری ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں